افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔اندھی محبت۔افسانہ نگار۔۔۔۔۔۔رضیہ سلطانہ الطاف پٹھان شولا پور۔
افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔اندھی محبت۔
افسانہ نگار۔۔۔۔۔۔رضیہ سلطانہ الطاف پٹھان شولا پور۔
سمیر اور عالیہ دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے ۔ ۔۔ سمیر جب عالیہ سے ملتا اُسے سلام کیا کرتا تھا ۔ عالیہ کو یہی لگتا رہا کہ سمیر مسلمان ہے۔عالیہ سے سمیر اِک دن محبت کا اظہار کرتا ہے ۔عالیہ کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ سمیر ایک غیر قوم کا لڑکا ہے ۔سمیر نے عالیہ کو بتایا ہے نہیں تھا کہ وہ ایک ہندو ہے۔جانے انجانے میں عالیہ سمیر سے محبت کر بیٹھتی ہے۔ ایک دن عالیہ سمیر سے ملاقات کے بعد گھر جاتی ہے عالیہ کے گھر میں عالیہ کی دو بہنیں اور والدین رہتے ہیں عالیہ بڑی بیٹی ہے عالیہ کی دوسری بہن پروین ہے جو کہ عالم کورس کر رہی تھی اور ایک چھوٹی بہن تھی جس کا نام رحمت تھا
عالیہ بہت ذہین اور اپنی کلاس میں ہمیشہ اول درجہ میں کامیاب ہوتی تھی ۔
والدین کو بہت فخر تھا کہ بچے بہت ذہین اور سمجھدار تھے والدین کو کبھی بیٹے کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی عالیہ کے والد ہمیشہ لوگو سے کہتے تھے کہ بیٹی بھی والدین کا سر فخر سے اُٹھا سکتی ہے وہی خوشی دیتی ہے جو بیٹا دے سکتا ہے اسلئے مجھے کوئی غم نہیں کے مجھے بیٹا نہیں ہے
ایک دن کالج میں اپنی سہلی کے ذریعے عالیہ کو واقفیت حاصل ہوتی ہے کہ سمیر ایک ہندو ہے عالیہ کو سہلی کی بات پر یقین نہیں آتا
عالیہ۔میں اتنی غافل نہیں ہوں کہ جس سے پیار کرتی ہے اس کے بارے میں اتنا بھی نہیں معلوم اگر ایسا ہوتا تو سمیر مجھے ضرور بتاتا تھا ۔مجھے سمیر پر بہت بھروسہ ہے وہ ایسا نہیں کرسکتا
عالیہ ۔۔میں بہت پریشان تھی یہ سوچ سوچ کر کہ میں ایک ہندو کے ساتھ تعلق رکھی ہوئی ہوں ۔
عالیہ۔۔ ہیلو۔۔ سمیر مجھے تم سے بات کرنا ہے جلد از جلد کالج میں آؤ ۔ میں سمیر سے ملاقات کے لئے منتظر کالج میں ٹھل رہی تھی پھر سمیر آتا ہے میں خود رک نہیں پائی بڑے بڑے قدم اُٹھا کر سمیر کے بالکل قریب روبرو جاکر کھڑی ہو گئی ۔۔
سمیر ۔۔۔عالیہ کو دیکھ کر پریشان ہوتا ہے آج عالیہ کا روایہ اتنا کیوں بدل گیا ہے ۔عالیہ اس یقین سے سمیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ جو کچھ اُس نے سمیر کے بارے میں سنا وہ سب جھوٹ ہے
عالیہ۔۔ سمیر تم کون ہو ؟
سمیر ۔۔مسکرا کر*!*میری جان میں تمہارا سمیر ہوں
عالیہ ۔۔ سمیر میرا مطلب تمہارا مذہب کیا ہے؟
اب سمیر سمجھ گیا تھا کہ عالیہ کو اُس کی حقیقت معلوم ہوچکی ہے۔ سمیر بات کو سنبھالتے ہوئے کہتا ہے ۔
سمیر ۔۔عالیہ میری جان میں اتنا جانتا ہوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں میں نہیں جانتا کہ تم کس خدا کو مانتی ہو اور میں کسے بس میں اتنا جانتا ہو کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ۔
عالیہ سمیر کی باتوں میں کھوئی جارہی تھی اس کی محبت کا اظہار اسے اچھا لگنے لگا سمیر عالیہ سے محبت کا اظہارکرتا گیا سمیر عالیہ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوا کہ وہ عالیہ سے بے انتہا محبت کرتا ہے
سمیر۔۔۔ میں تمہارے خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں یہاں تک کہ اگر تم کہو تو میں مسلمان بن نے کو بھی تیار ہوں۔۔عالیہ تم مجھے سے اپنے تعلقات ختم مت کرنا ۔بس عالیہ مجھے ایک موقعہ دو.. بولو عالیہ میں کب اسلام قبول کرو ۔
عالیہ۔۔ سمیر تم نے مجھےیہ پہلے کیوں نہیں بتایا ؟
سمیر ۔۔عالیہ میں اگر تمہیں پہلے بتاتا تو شاید تم مجھ سے محبت ہی نہیں کرتی اسی ڈر سے میں نے تمہیں نہیں بتایا عالیہ خدا کیلئے مجھے غلط مت سمجھو میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں
سمیر کے بہت اسرار کے بعد عالیہ مان جاتی ہے
عالیہ یہ سوچتی ہے کہ سمیر اسلام قبول کرلے تو شادی کرنے میں کیا حرج ہے عالیہ گھر جاتی ہے۔۔ عالیہ اسی خیال میں رہتی ہے کہ پڑھائی ختم ہونے کے بعد دونوں شادی كرينگے وقت گزرتا گیا ملاقاتیں بڑھتی گئی سمیر کے اسلام قبول کرنے والی بات سے تو عالیہ بہت ہی متاثر ہوگئ تھی
ایک دن عالیہ کے والد کو علم ہوتا ہے کہ عالیہ کسی غیر قوم کے لڑکے سمیر کے ساتھ تعلق بنائے ہوئے ہے۔
علیہ کے والد بہت پریشان ہوتے ہیں اور اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوتے ہیں کہ ان کی بیٹی نے اپنے لئے ایک ہندو کو پسند کیا ہے عالیہ کو کالج سے واپس گھر بلایا گیا
عالیہ گھرآتی ہے ماں باپ عالیہ کو بہت غصہ کرتے ہیں
والدین ۔۔ بیٹا تو ایک مسلم لڑکے سے شادی کرلے غیر قوم کا یہ لڑکا تمہیں برباد کردیگا ۔۔ہم نے کنڈا زبان زیر تعلیم تمہیں اس لیے رکھا تکہ تم مہارت حاصل کرو اور تمہیں کہی بھی جوب کرنے میں کوئی دشواری نہ آئے اسلئے نہیں پڑھایا کہ تم پڑھ لکھ کر ہندو کو پسند کر کہ خود بھی ہندو بن جاؤ ۔۔
عالیہ ۔۔ میں ہندو نہیں بنو گی بلکہ وہ میرے لئے اسلام قبول کرکے مسلمان بننا چاہتا ہے
ابو۔۔ نہیں بیٹا وہ صرف تمہیں دھوکا دیگا
عالیہ کی بہن پروین ۔۔ باجی محبت رسوائی کا نام نہیں ۔۔ محبت ذلت کا نام نہیں۔۔محبت اللہ کی ناراضگی کا سبب نہیں ۔۔ اگر محبت اللہ سے کرو تم تو یہ انسان کو درجہ کمال تک پہنچا دیتی ہے
باجی بھلا یہ بھی کوئی محبت ہوئی جس میں اللہ کی ناراضگی شامل ہو
پروین ۔۔ باجی جس کو اللہ سے محبت نہیں اللہ کے رسولﷺسے محبت نہیں بھلا اُسے آپ سے کیسے محبت ہوسکتی ہے ۔۔
باجی بھلے ہی نکاح کرکے ساتھ لے جانے والا تھوڑا غریب ہی سہی کالا ہی سہی پر گناہ کرکے چھوڑ جانے والے خوبصورت محبوب سے لاکھ گناہ بہتر ہے ہوتا ہے
باجی قابلِ رشک ہے وہ محبت جس میں تم کسی ایسے شخص کو پا لو جو تمہارے ایمان کو مضبوطی بخشے اور تمہیں نیک بنا دے نکہ تمہیں گنگار جہنمی بنائے
باجی ہمارا تعلق تو اُس ذات سے ہے جو مانگنے سے پہلے عطا کردیتا ہے
باجی ۔۔ الحمدللہ
ایسے ربّ کی بندگی چھوڑ کر آپ کافر بن جاؤ گی کیا باجی آپ ایسا مت کرو
ایمان دل سے معتبر ہوتا ہے باجی اگر کوئی انسان اللہ پر اُسکے رسول ﷺپر دل سے یقین کرتا ہے آپ ﷺ کی لائی ہوئی باتوں کو دل سے تسلیم کرتا ہے اور قیامت کے دن پر یقین لاتا ہے تو وہ یقینّا اسلام میں داخل ہوتا ہے
اگر وہ صرف تم سے شادی کرنے کیلئے کہے رہا ہے تو اُسکا معاملہ اللہ ہی بہتر جانے باجی
ابو۔۔۔۔ نصیحت کرتے ہیں کہ
بیٹا ہم جس چہرہ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں وہ ہمارا انتخاب نہیں ہوتا۔ مگر جس کردار کے ساتھ ہم مرتے ہیں اسے تراشنے کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے لفظوں خیالوں اور اعمال کا ہی عکس ہوتا ہے یہ نفسی خواہشات ہماری آخرت برباد کردینگے تم آخرت کی فکر کرو ہم تمہارے لئے بہت ہی نیک لڑکے کا انتخاب کرینگےجو تمہاری زندگی خوشیوں سے بھر دیگا اور تمہاری دنیا اور آخرت سنوار دیے گا۔
عالیہ کے والد کہتے ہے کہ عالیہ ایک بات دھیان رکھو اگر تم سمیر سے اپنا رشتہ ختم نہیں کروں گی تو تمہارا ہمارا رشتہ ختم سمجھو ہم سمجھینگے کہ ہماری دو ہی بیٹیاں ہیں
والدین کے لاکھ سمجھانے کے بعد بھی عالیہ نہیں مانتی ہے عالیہ اور سمیر کی ملاقات ہوتی ہے
سمیر ۔۔ عالیہ کیا ہوا تم کئی دن سے کالج نہیں آئی ۔۔ میں بہت بے صبری سے تمہارا انتظار کررہاتھا ۔
عالیہ سمیر کو ساری بات بتاتی ہے ۔عالیہ سمیر سے کہتی ہے کہ اب تم اسلام قبول کرلو پھر ہم گھر والوں سے اپنی شادی کی بات کرتے ہیں۔
سمیر بڑی ہی چالاکی سے عالیہ کو سمجھاتا ہے کہ ابھی میں اسلام قبول کر لوں گا تو میرے گھر والے شادی کے لیے منع کر دیں گے عالیہ کہتی ہے کہ ایسے تو کوئی ایک مانے گا تو دوسرا نہیں مانے گا اب ہم کیا کرے
سمیر ۔۔۔عالیہ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے پہلے ہم یہاں سے بھاگ جائیں گے اور شادی کرکے واپس آئیں گے اور پھر میں اسلام قبول کرونگا۔
پھر عالیہ اور سمیر دونوں گھر سے بھاگ نے کا منصوبہ بناتے ہیں۔عالیہ رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگ آتی ہے سمیر کے بتائے ہوئے جگہ پر پھر دونوں مل کر بھاگ جاتے ہیں
سمیر اور عالیہ بھاگ کر دوسرے گاؤں جاتے ہیں ادھر عالیہ کے والدین کو علم ہوتا ہے کہ عالیہ گھر سے بھاگ گئی ہے معاشرے میں بہت بدنامی ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کسی ہندو کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ عالیہ کے والد بہت سخت بیمار ہوتے ہے انھیں دل کا دورہ پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی فوت ہوتی ہے
عالیہ اپنے باپ کے آخری دیدار سے بھی محروم ہوتی ہے۔
وہ باپ جس نے اس کے پیدا ہونے کی خوشی ایسی منائی کہ پورا خاندان دیکھتا رہ گا۔ وہ باپ جو اسے دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔ وہ باپ جو اس کے کھلونوں کی فرمائش کی خاطر تیز تپتی ہوئی گرمی میں زیادہ سے زیادہ کام کرتا۔ وہ ایک چیز مانگتی تو وہ ساتھ دو چیزیں اور لے آتا۔ وہ باپ جس جو اپنا کام ادھورا چھوڑ کر اس کو اسکول سے لینے جاتا۔ وہ باپ جس نے اپنی بساط سے بڑھ کر ایک مہنگے کالج میں اس کا داخلہ کروایا۔ وہ باپ جس نے کبھی اس کے اکیلے آنے جانے پر روک ٹوک نہ کی۔ خاندان والوں نے طرح طرح کی باتیں کی پر اس نے ان پر کان نہ دھرا۔ وہ باپ جس نے اس کی فرمائش پر پورے خاندان کی مخالفت مول لے کر اس کو مہنگا موبائل لے کر دیا۔ وہ باپ جس نے ایک بار بھی اس کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھا ایک دفعہ بھی اس سے موبائل لے کر نہ چیک کیا۔ اور آج اسی باپ کو اس نے زندہ رہنے کے قابل ہی نہ چھوڑا تھا۔ کیا اس بیٹی سے زیادہ بد بخت کوئی ہو سکتا تھا؟ ماں جس نے اتنی تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا۔ اس کو سمبھالتے اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد کیا۔ وہ رات کو بھوک سے جاگ جاتی تو اس کی ماں کی نیندیں حرام ہو جاتیں۔ خود گیلے پر لیٹ کر اس کو خشک پر لٹاتی ۔ وہ ماں جس نے اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ وہ ماں جس نے اسے دنیا میں جینے کا ہنر دیا۔ وہ ماں جس نے اسے حق اور باطل میں تفریق کرنے کا شعور دیا پر وہ پھر بھی بھٹک گئی۔ وہ ماں جس نے اس کے آرام کو دیکھتے کبھی اسے کسی کام کو ہاتھ تک نہ لگانے دیا۔ وہ سہیلیوں سے ملنے کے بہانے کالج کے بعد کافی دیر تک باہر رہتی پر اس کی ماں نے کبھی اس سے پوچھ گچھ نہ کی۔ پر یہاں اس کی ماں غلط تھی۔ بہت غلط!
والدین کو خاص دھیان رکھنا چاہیے کہ ہمارا بچہ کیا کر رہا ہے۔ اس کی صحبت کیسی ہے۔ وہ کہاں آ جا رہا ہے۔ کالج کے بعد کون سی ایکسٹرا کلاس لے رہا ہے۔ کن دوستوں کے ساتھ کہاں گھوم پھر رہا ہے۔ اولاد پر اعتبار ضرور کرنا چاہیے ۔ پر آج کل کے حالات پر نہیں۔ اولاد کو آزادی ضرور دو پر ان پر نظر بھی رکھو۔ یہی غلطی تھی عالیہ کے والدین کی
عالیہ کی والدہ بہت اکیلی اور پریشان رہتی ہے عالیہ کی وجہ سے عالیہ کی بہن کو کوئی کوئی اچھا رشتہ نہیں آرہا تھا گھر کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے ۔ پھر ایک دن پروین کیلئے ایک رشتہ آتا ہے وہ لڑکا دو بچوں کا باپ رہتا ہے جو کہ پروین سے تقریباً پندرہ سال کا بڑا آدمی تھا نہ چاہتے ہوئے بھی پروین کو اس آدمی سے شادی کرنی پڑھی تھی اسطرح کی شادی سے پروین بھی خوش نہیں ہوتی پھر ماں کی مجبوری اور بہن کی وجہ سے پیدا ہوئے حالات کی وجہ سے اور یہ سوچتی ہے کہ کیا ہوا یہ لڑکا جو مجھ سے تھوڑا عمر میں بڑا ہے یہ کیا کم ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے دیندار ہے با الخلاق ہے یہ سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پروین اس شادی کو خوشی سے منظور کر لیتی ہے
ادھر عالیہ اور سمیر دوسرے گاؤں جاکر رہتے ہیں عالیہ کو کسی کمپنی میں جاب ملتی ہے اور سمیر بیکار ہی رہتا ہے عالیہ کئی بار شادی کے لئے کہہ چکی تھی اور سمیر ہر بار ایک نیا بہانہ لگا کر شادی کی بات کو ٹال دیتا تھا
سمیر ۔۔۔ پہلے تم پوجا کرنا سیکھ لو میرے مذہب میں آؤ پھر میں اسلام قبول کرتا ہوں میں تمہارے خاطر تمہارا اسلام قبول کرنے کو تیار ہوں تو تم بھی میرے لئے کچھ کرنا ہوگا نا مجھے میرے ممی اور پاپا کو بتنا ہوگا کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو میرے خاطر میرا دھرم اپنا رہی ہو۔
اسطرح سمیر عالیہ کو ہندو بننے پر مجبور کرتا ہے ۔۔۔
عالیہ سمیر کی محبت میں اتنی اندھی ہوچکی تھی کہ وہ خوشی سے قشقہ کا لگانے لگی تھی صبح اُٹھ کر پوجا کرتی تھی شادی کے بغیر ہی مانگ میں سندور لگانے لگی تھی سمیر عالیہ کو اپنی جھوٹی محبت میں اندھی بناچوکا تھا اور عالیہ بڑے شوق سے بن بھی رہی تھی
ایک دن عالیہ کو چکر آنے لگے تھے
پھر چیک ایپ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ عالیہ تین مہنے پريگننٹ ہے
عالیہ گھبرا گئی بہت پریشان ہورہی تھی کہ اب آگے کیا ہوگا وہ سمیر سے مننتے کرنے لگی کہ وہ اب شادی کرلے سمیر شادی کیلئے تیار ہوجاتا ہے
سمیر۔۔۔ عالیہ تم تنخواہ لیکر آنے کے بعد شادی کی تیاری کرتے ہیں۔
عالیہ ۔۔ بہت خوش ہوتی ہے۔
عالیہ۔۔ ساری تنخواہ لائی ہوں سمیر اب جلدی شادی کی تیاری کرو
عالیہ۔۔میں آفیس کو جاتی ہوں اور سمیر اب تم ساری خریداری کر کے آنا ہوں ۔۔
دونوں صبح گھر سے نکلتے ہیں۔
شام کو ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد عالیہ گھر آتی ہے ۔۔سمیر میں موجود نہیں تھا سوچتی ہے کہی گیا ہوگا آجائے گا ۔۔بہت رات ہوتی ہے سمیر کا کچھ پتہ نہیں تھا عالیہ بہت پریشان ہوتی ہے پھر عالیہ کی نظر سمیر کی چھوڑی چھٹی پر پڑتی ہے۔ چٹی میں صاف لکھا تھا عالیہ میں تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتا اور نہ ہی تمہارے بچے سے میرا کوئی رشتہ ہے سب کچھ ختم کر کے جارہا ہوں مجھے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔
چٹھی پڑھنے کے بعد عالیہ کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے کسی نے اُس کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچی لی ہو۔۔
عالیہ ۔۔ سمیر کو منانے کیلئے کئی بار فون کرتی ہے پر سمیر نے اپنا نمبر ہی بند رکھا تھا۔
عالیہ کا رورو کر برا حال ہوگیا تھا۔۔ محلے میں سب کو اس بات کا علم ہوتا ہے کے عالیہ اور سمیر شادی شدہ نہیں تھے یہ دونوں لیونگ ریلیشن شپ میں تھے محلے کے لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے اور عالیہ کو بہت تعنے دیتے ہیں کہ تمہارا بچہ ناجائز ہے اور یہ شریفوں کا محلّہ ہے تم جیسوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے گھر خالی کرو اور یہاں سے چلی جاؤ۔۔اِدھر آفیس میں بھی سب کو پتہ چلتا ہے عالیہ کے بارے میں عالیہ کو خراب کیریکٹر ثابت کر کہ بہت ہی بورا بھلا بول کر جوب سے نکلا دیا جاتا ہے ۔۔
عالیہ کے لئے یہ لمحے بہت اذ یت دے تھے ۔۔عالیہ گھر آتی ہے ۔محلے میں لوگ عالیہ کو آتے دیکھ کر باتیں کرنے شروع کرتے ہیں ۔عالیہ کے پاس اُنکی کسی بھی بات کا جواب نہیں تھا وہ چوپ چاپ روتے روتے گھر آتی ہے۔
عالیہ بہت گہری سوچ میں بیٹھی تھی عالیہ کو والدین کی نصيحت یاد آنے لگی تھی سب نے کتنا سمجھایا تھا چھوٹی بہن نے تک سمجھایا تھا مجھے سب کی بات نہ مان کر میں نے کیا پالیا۔
عالیہ ۔۔سمیر کی جھوٹی محبت میں آکر میں نے سب کو بہت تکلیف دی یہاں تک کہ میرے بھاگ جانے کی بدنامی سے میرے والد کا انتقال ہوا میری وجہ سے زیادہ عمر والے دو بچوں کے باپ سے پروین کی شادی ہوئی۔
کیا زندگی ہے میری جس میں نہ والدین کے ہاتھوں میری بیدی ہوئی ناہی اس زندگی میں شوہر کا ساتھ ہے نہ ہی معاشرے میں عز ت ملی نہ ہی ماں بن کر بھی ماں بننے کی خوشی ملی
عالیہ۔۔ آج مجھے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ سمیر کی جھوٹی محبت میں آکر میں نے اپنی زندگی برباد کرلی اپنے ربِّ کی عبادت چھوڑ کر پوجا پاٹ کیا جس پیشانی پر عبادت کا نشان ہونا تھا وہاں میں نے خود قشقہ لگالیا جو ہاتھ اللہ کی عبادت کیلئے دعا کیلئےاُٹھنے تھے وہی ہاتھوں سے پوجا کیا گھنٹی بجانے لگے تھی جس بیٹی کو والدین کا سر فخر سے اُٹھانا تھا وہی موت کی وجہ بنی جس بڑی بہن کو چھوٹے بہنوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنا تھا وہی بہن اُنکو یتیم کرنے کی وجہ بنی ماں کے دل کو ایسا زخم دیا جو کبھی نہیں بھر سکتا تھا۔۔
آج مجھے اپنی زندگی پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے سمیر کی باتوں میں آکر سب کو بہت دکھ دے ایک ناجائز رشتے میں رہی اک ناجائز بچے کی ماں بننے والی ہوں۔
عالیہ بہت روتی ہے بہت بے چین ہوتی خود سے لڑرہی ہوتی ہے پر افسوس اب کچھ بھی بدلہ نہیں جاسکتا تھا اب اسکی واپسی ناممکن ہے۔
عالیہ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا اب اُسکے پاس خود خوشی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اپنے آخری لمحات میں وہ اپنے والد کو بہت یاد کرتی ہے اللہ سے رورو کے دعا کرتی ہے اپنے گناہوں سے توبہ کرتی ہے معافی مانگتی ہے پھر سے ایمان قبول کرتی ہے ۔ ایک بار سب سے ملنا چاہتی ہے پر اب وہ اپنے گھر بھی واپس نہیں جاسکتی تھی ۔۔عالیہ نے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ لیا۔
شام ہوتی ہے عالیہ گھر کا دروازہ بند کرتی ہے پنکھے سے گلے میں رسی ڈال کر پھانسی لیتی ہے کچھ دیر میں ہی عالیہ کی فوت ہوجاتی ہے۔
بہت افسوس عالیہ کو بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ رات بھر عالیہ کی لاش پھانسی کے پھندے سے لٹکتی ہے پوری رات عالیہ کی لاش کو کوئی دیکھنے والا نہیں تھا کوئی رات بھر میں عالیہ کو پھندے سے نیچے اتارنے والا نہیں تھا نہیں ہی عالیہ کی موت پر کوئی رونے والا تھا عالیہ کی عبرت دے موت تھی کسی کو کوئی غم نہیں کسی کو کوئی افسوس نہیں۔
پوری رات بیت جاتی ہے رات بھر میں عالیہ کی لاش اکھڑ چوکی تھی۔
صبح ہونے کے بعد محلے میں چہل پہل شروع ہوتی ہے گلی میں کھیل رہے ایک لڑکے کی نظر عالیہ کے گھر کی کھڑکی پر پڑتی ہے کھڑکی سے عالیہ کی لاش نظر آرہی تھی ۔۔لڑکا زور سے چیخ مارتا ہے پھر سب جمع ہوتے ہیں لڑکا سب کو عالیہ کے گھر کے طرف ہاتھ کرکے بتاتا ہے سب لوگ عالیہ کی لاش کو دیکھتے ہیں گلی والے سوچتے ہیں یہ پولس میٹر ہے اسلئے پولس کو انفورم کیا جاتا ہے۔پولس آکر دروازہ توڑتی ہے پھر عالیہ کی لاش کو نیچے اُتارا جاتا ہے پوسٹ مرٹم کیلئے عالیہ کی لاش کو لے جایا جاتا ہے
تین دن تک عالیہ کی لاش مردہ گھر میں پڑی رہی پھر گلی کے لوگوں کو رحم آتا ہے کہ کم سے کم لاکر اسکا انتم سنسکار کیا جائے تو پوننے ملگا پھر فوت کے چار دن بعد عالیہ کا انتم سنسکار ہوتا ہے کافی دن ہونے کی وجہ سے عالیہ کی لاش سے بدبو آنے لگی تھی عالیہ کو نہ ہی غسل دیا گیا نہیں نمازِ جنازہ ادا ہوئی نہ ہی کفن نصیب ہوا۔
اسطرح عالیہ نے اپنی دنیا اور آخرت خراب کرلی ۔عالیہ کی یہ عبرت دے زندگی یہ درد ناک موت عالیہ کی سڑتی جلتی لاش چیخ چیخ کر کہے رہی کوئی عالیہ کی غلطی کو دوبارہ نہ دوہراے عالیہ نے حرام زندگی جي حرام موت مری اللہ تعالیٰ جو خدخوشی کرتے ہیں جس طرح کرتے ہیں اُنکو قیامت تک ويسی ہی سزا دیتا ہے عالیہ قیامت تک پھانسی پر ہی لٹکائی جائی گی عالیہ کی لاش کو جلایا گیا اُسکا گناہ عالیہ کو نہیں ہوگا وہ لوگ ذمدار ہیں جنھوں نے عالیہ کو تدفین کرنے کے بجائے اُسکا انتم سنسکار کیا
Comments
Post a Comment