کربلا کا واقعہ اور یزید کا کردار۔از قلم۔۔۔۔۔رضیہ سلطانہ الطاف پٹھان شولا پور۔
کربلا کا واقعہ اور یزید کا کردار۔
از قلم۔۔۔۔۔رضیہ سلطانہ الطاف پٹھان شولا پور۔
ہمارے خلفائے راشدین کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے بعد حضرت حسنؓ ابن علیؓ 6 مہینے کی خلافت کی اب خلافت مکمل ہوئی چونکہ آپؐ نے 30 سال خلافت کا دور کہا تھا یہ 6 مہینے کو دور خلافت نہیں کہا جاتا ہے
اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی طاقت کی بنا پر خلافت حاصل کی اسلئے حضرت معاویہؓ کو خلیفۂ راشید نہیں کہتے مگر یہ بھی سچ ہے حضرت معاویہؓ کا دور بڑا ہی پرسکون دور تھا۔۔ 10 برس کا تھا حضرت معاویہؓ کی دور حکومت ان کی خلافت پر تمام مسلمانوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر بیعت کیا پر پانچ بڑی شخصیتیں ایسی تھیں جنہوں نے اس طاقت کی بنا پر حاصل کی ہوئی خلافت پر بیعت کرنے سے انکار کیا
حضرت ابوبکر صدیق ؓکے بیٹے حضرت عبد الرحمن ابن ابوبکرصدیق ؓ، حضرت عمر فاروقؓ شہید ہوچکے تھے اُنکے بیٹے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ،حضرت زبیرؓ فوت ہوچکے تھے اُنکے بیٹے حضرت عبد اللہ ابن زبیرؓ، حضرت عبّاسؓ فوت ہو چکے تھے اُن کے بیٹے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ شہید ہوچکے تھے اُن کے بیٹے حضرت حسینؓ ابن علی یہ بڑی شخصیت تھی جنہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ قیصر و کسریٰ کی سنت پر عمل نہیں کریں گے باپ کے بعد بیٹا حاکم بن جائے
کیوں جو حضرت معاویہؓ نے طاقت کی زور پر حکومت حاصل کی تھی اور پھر اب یہ چاہ رہے تھے کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کریں اسلئے انہوں نے صاف انکار کیا
حضرت معاویہؓ بات کو آگے بڑھنے نہیں دیا اور کہا کہ یہ لوگ بیعت نہیں کرنا چاہتے ہیں تو مت کریں اُن پر کوئی زبردستی کوئی ظلم کسی قسم کہ جھگڑا یا فساد نہیں ہوا 10 سال کی دورِ حکومت کے بعد
حضرت معاویہؓ کی وفات ہوئی ان کے بعد والی عہد یزید کو خلافت ملی پھر تمام گورنر کو حکم دیا گیا کے اپنے اپنے علاقے کی لوگوں سے بیعت لیں پھر تمام عالم اسلام نے یزید کی بیعت قبول کرلی بحثیت خلیفہ اب جو 5 حضرات تھے جو ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کیا تھا اُن میں سے ایک کا انتقال ہوا حضرت عبد الرحمن ابن ابوبکرصدیق ؓ4 حیات تھے اُن میں دو حضرت عبد اللہ ابن عبّاسؓ جو عمر میں سب سے بڑے تھے یہ اُن کی شان تھی کہ انہیں *حبرالامۃ* *(امت کا بہت بڑا عالم)* کہا جاتا تھا اُمت کے سب سے بڑے عالم اور قرآن مجید کے سب سے پہلے مفصل تھے ان کا بہت اونچا مقام ہے اور دوسرے تھے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ ان کا بھی بڑا اونچا مقام ہے ان دونوں کی ایک رائے ہوئی کہ کام یہ غلط ہوا قیصر و کسریٰ کی رویت پر عمل کیا جارہا ہے۔۔ پر ان دونوں کی یہ رائے ہوئی کہ یہ اتنی بڑی غلطی نہیں ہے جس کیلئے خون ريزی ہو گردنیں کاٹ دیے جائیں جنگ و جدول ہو فتنہ و فساد برپا ہو ۔۔اسلئے دونوں نے یزید کی بیعت قبول کرلی اب باقی رہے دو حضرات ایک حضرت عبد اللہ ابن زبیرؓ جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نواسے حضرت عائشہؓ کی ہمشیرہ حضرت اسماءؓ کے صاحبزادے تھے اور ایک حضرت حسینؓ ابن علی تھے حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ جو بہت بہادر تھے انہوں نے کہا کہ یہ کام غلط ہے ہم اسلام کے نظام کو نیچے گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے اس غلطی کو ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے ۔۔۔ حضرت حسینؓ ابن علی بھی نہایت بہادر نہایت شجاع انہوں نے بھی کہا کہ قیصر و کسریٰ کی غلط روایت پر ہم عمل نہیں کریں گے اس کو روکنا ضروری ہے
پھر حضرت حسینؓ کو کوفہ والوں کے خطوط ارسال ہونے شروع ہوئے کوفہ والوں نے حضرت حسینؓ کو اپنے خطوط کے ذریعے کوفہ بولا رہے تھے اور کہے رہے تھے کہ آپ آئیں ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے تاکہ قیصر و کسریٰ کی سنت جو چل رہی ہے اُس کو روکا جاسکے تو حضرت حسینؓ نے فیصلہ کیا کہ وہ کوفہ جائیں گے حضرت زبیرؓ روکتے گئے کہ کوفہ والوں کا بھروسہ مت کیجئے یہ دھوکا دیں گے پر حضرت حسینؓ بڑے ہی با مروت انسان تھے وہ نہیں مانے ۔۔ شہادت انہیں بولا رہی تھی وہ نہیں روکے
پھر حضرت حسینؓ اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ کوفہ کے لیے نکلے بغیر کسی جنگی منصوبے کے حضرت حسینؓ کے ساتھ 72 لوگوں کا لشکر تھا ۔۔۔۔کوفہ سے 18 میل دور کربلا پر پہنچ گئے۔۔دریائے فرت کے کنارے خیمے لگا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔
ان دنوں جتنے بھی کوفي وہاں سے گزرے حضرت حسینؓ نے کہا کہ میں خود نہیں آیا تم نے مجھے بلایا ہے
فلاں ابن فلاں کیا تم نے مجھے خط نہیں لکھا تھا ایک تھیلا تھا جو کوفیوں کے خطوط سے بھرا تھا یہ دیکھو تمہارے خطوط جو میرے پاس موجود ہے یہ وہ ثبوت تھے جس کے لئے کوفیوں نے اور عبید اللہ نے حضرت حسینؓ کا قتل کیا اگر یہ خطوط یزید کو بتائے جاتے تو ان کا بھانڈھا پھوٹ جاتا ایک طرف یزید کے خلاف خطوط لکھے تھے پھر دوسری طرف حسینؓ کے خلاف ہوکر انہیں قتل کرایا اور پھر پورے کربلا میں موجود تمام خیموں کو آگ لگا کرجلادیا گیا
پہلے عبید اللہ ابن زیاد نے 1000 کا لشکر بھیجا ۔۔۔اس پر حضرت حسینؓ نے انہیں سمجھایا اور اُن لوگوں پر اُنکی باتیں اثر کرگئی ان کہ سردار حر بن یزید ریاحی نے حضرت حسینؓ کا ساتھ دیا اور شہادت نوش فرمایا
پھر دوسرے کو بھیجا عمر بن سعد جو مشہور صحابی رسول سعد بن ابی وقاصؓ کے فرزند تھے۔۔۔ عمر بن سعد 4000 آدمی لیکر ائے چونکہ ان میں ایک عظیم باپ کا خون تھا جو انہیں حضرت حسینؓ پر ظلم کرنے سے روک رہا تھا انہوں ان پر کوئی ظلم نہیں کیا عبيد اللہ ابن زیاد کو خبر ملی کے عمر بن سعد حسینؓ پر کوئی ظلم نہیں کررہا ہے اور انہیں راستہ دینے کے لئے بھی تیار ہے
پھر عبید اللہ بن زیاد نے بہت ہی خون خار شخص شمر کو بیجھا ۔۔ شمر نےکربلا میں جنگ شروع کی
پہلے اُنکے گھوڑے شہید کیے گئے پھر ایک ایک کر کے 72 لوگوں کو شہید کیا گیا اس میں 20 افراد خاندانِ بنِ ہاشم کے تھے یہ ساری شازش عبید اللہ ابن زیاد کی تھی
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی رائے یہ ہے کہ یزید کا حضرت حسینؓ کے قتل میں شامل ہونا یا یزید کے حکم سے قتل ہونا کسی مستند روایت سے نہیں ملتا اسلئے یزید کو نا رحمتہ اللہ کہے کیوںکہ اگر یزید قتل میں شامل تھا تو رحمتہ اللہ کہنے پر پکڑے جاؤگے اگر یزید پر لعنت کروگے اور یزید قتل میں شامل نہیں ہوا تو لعنت بھیجنے پر پکڑے جاؤ گے یہ بھی صحیح ہے کہ قتل یزید کی دورِ حکومت میں ہوا اور وہ انجان رہا یزید نے صرف عبید اللہ ابنِ زیاد کو صرف گورنر کی پوسٹ سے نکالا اسلئے یزید معصوم سمجھنا بھی غلط ہوگا۔۔
حضرت حسینؓ کے قتل میں جو بھی شامل تھے اُن پر کڑوڑ ہا دفعہ لعنت
Comments
Post a Comment