حضرت امام حسین ؓ کی شہادت عظمیٰ نے ہر طرح اسلام کی عظمت کا ثبوت فراہم کردیا۔ ڈاکٹر ا لحاج خلیفہ شاہ محمد ادریس احمدقادری ” صاحب“ بگدلی کا جلسہ یاد امام حسین سےخطاب۔
بیدر24 جولائی (نامہ نگار)۔حضرت سیدنا امام حسین کا میدان کربلا سے دیا ہوا پیغام اور فلسفہ حق و صداقت دین اسلام کی سربلندی کا روشن نشان ہے،حضرت سیدنا امام حسین کا فلسفہ شہادت صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لئے ایک دستور حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔، سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کانوں میں اذان دی اور اپنی زبان مبارک آپ کے منہ میں داخل فرمائی اور دعا فرما کر نام نامی حسین عطافرمایا "رکھا،سیدنا امام حسین کی شہادت نے مردہ ضمیروں کو بیدار کیا، انداز فکر کو بدلا عظیم انقلاب برپا کرتے ہوئے انسانی اقدار کی عظمت و اہمیت کو فروغ دیا۔ نواسہ رسول سیدنا امام حسین سید نا علی المرتضی اور سیدہ نساء فاطمہ زہرا کے عظیم فرزند "سیدنا امام حسن کے برادر اصغرہیں۔ ابو عبد اللہ آپ کی کنیت، سید، طیب، مبارک، سبط النبی،ریحانہ النبی اور نواسہ رسول القابات ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پیر طریقت ڈاکٹر الحاج خلیفہ شاہ محمد ادریس احمد قادری ” صاحب“ بگدلی سجادہ نشین درگاہ آستانہ قادریہ بگدل شریف وبانی وسرپرست دارالعلوم قادریہ بگدل نے آستانہ میں منعقدہ جلسہ یا دحضرت سیدناامام حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ سیدنا امام حسین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اور آپ کے براد را کبر سیدنا امام حسن سے بے حد محبت فرماتے کہ اکثر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم آپ دونوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپ کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ اور تمام صحابہ کرام بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حضرات حسنین کریمین سے خصوصی شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے اور اکرام فرماتے۔ متعدد احادیث مبارکہ آپ کی بلند شان پر دلالت کرتی ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالی سے محبت کی۔ جب اندھیرے میں سیدنا امام حسین تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار روشن ہو جاتے۔سیدنا امام حسین حد درجہ کے ذہین، قرآنی اسرار ورموز کے ماہر، نابغہ روزگار محدث صف شکن مجاہد، بصیرت وفراست کے شاہ کار قائد اور زہد و تقوی کی دستار اور ولایت و معرفت کا معیار تھے، بے حد فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، غرباءپروری، اخلاق و مروت، علم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپ کی خصوصیات حسنہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ محبت اہل بیت تمام مسلمانوں پر واجب ہی نہیں بلکہ ان کو اپنا مشعل راہ بنائیں۔اﷲ کے ذکر قلب نظر کو صاف کرتا ہے بندے کوچاہیئے کہ وہ بغض ، کینہ ، حسد ، چغلی، غیبت اور دوسروں کی عیب جوئی سے اجتناب کرے۔ انہوں نے پنچوقتہ نمازوں کی پابندی کی سخت تلقین کی۔جو شخص پانچ وقتوں کی نمازوں کی پابندی کرتا ہے اس کا دل پاک ہوتا ہے۔انہوں نے غوث الاعظم دستگیر ؓ ، حضرت شاہ سید محمد عبدالقادر ولی گنج سوائی گنج بخش بادشاہ ناگوری ؒ کے مختلف کرامتوں پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور درس تصوف دیا۔ مریدین و معتقدین نے جلسہ کے کامیاب انعقاد پر ڈاکٹر خلیفہ شاہ محمد ادریس احمد قادری صاحب کو مبارکباد دیتے ہوئے شاہا’جُبّہ ‘اور عمامہ باندھ کر قد آور گلوں کے ہار پہنا کرزبردست تہنیت پیش کی۔مولانامحمد ندیم قادری اُستاد دارالعلوم قادریہ بگدل نے اپنے پر اثر خطاب میں کہا کہ حضرت سیدنا امام حسین ؓنے دنیا کو دکھلادیا کہ نظام مصطفوی کے تحفظ کے لیے وہ اور ان کے اہل بیت وانصار کے حوصلے اور قربانیاں کافی ہوگئیں۔ حضرت امام حسین ؓکی شہادت عظمیٰ نے ہر طرح اسلام کی عظمت کا ثبوت فراہم کردیا۔قیامت تک حضرت امام حسین کی اس شہادت کو یادرکھا جائیگا۔عشق الٰہی کی سر شاری اور محبت رسول اﷲکا کیف ہر امتحان و آزمائش میں اہل سعادت کو ثابت قدم رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سن ساٹھ ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تولا دیت، نا انصافی، عہد شکنی ظلم و جبر اور فسق و نجور کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روح کے منافی فسق و فجور سے آراستہ فاسقانہ ثقافت اس کے دربار میں پروان چڑھنے لگی۔ ایسے وقت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لازم ہو گیا، لہذا اس نازک وقت اور سنگین دور میں یہ عظیم سعادت سیدنا امام حسین کے حصہ میں آئی اور آپ ایمانی جذبے سے سرشار ہو کر اسلامی شعائر کے فروغ اور اسلامی حدود کے تحفظ کی خاطر آپ نے کربلا کا راستہ اختیار کیا، آپ کا مقصد ہرگز حصول اقتدار نہیں تھا بلکہ اپنے ناناصلی اللہ علیہ وسلم کا پہنچایا ہوا دین اور امت مصطفیٰ کا مفاد تھا لہذا آپ نے نہ صرف اپنی ذات اقدس بلکہ اپنے پورے گلستان کو اور اپنے دیگر عزیزوں اور جاں نثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقام کربلا میں اسلام کی سربلندی اور امت کے وسیع تر مفاد پر قربان کر دیا ۔ آخر میں دعا کی کہ اللہ تعالی امت مسلمہ کو صبرحسینی و جذ بہ حسینی سے سرشار فرمائے۔سہ نشین پر محمد لئیق احمد قادری بگدلی اور دیگر موجود تھے۔ حافظ محمد شاہنواز نلدرگ کی قراءت کلام پاک سے جلسہ کی کاروائی کا آغا ز ہوا۔مولانا فاروق عالم ،مولاناصادق عالم، محمد شاہنواز "محمدسلیم قادری"انیل کمار چوہان و دیگر نے حمد و نعت اور منقبت کانذرآنہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ تلاوت سورہ یٰسین شریف، الحمد،سورہ اخلاص اور شجرہ عالیہ قادریہ کا ورد کیا گیا۔، سلام،فاتحہ و دعاءسلامتی کے بعد یہ روحانی تقریب تکمیل پذیر ہوئی۔ تصویر ای میل
Comments
Post a Comment