عہدہ و منصب کے حرص و خواہش کی ممانعت ۔از قلم : مولوی شبیر عبد الکریم تانبے ۔
از قلم : مولوی شبیر عبد الکریم تانبے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومتی و دیگر مناصب و عہدے یہ کوئی اعزاز اور شرف و عزت کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ امانتیں اور ذمہ داریاں ہیں اور کل قیامت کے دن انکے بارے میں سوال کیا جانا ہے اور ان عہدے اور مناصب کے مستحق وہیں لوگ ہیں جنکے اندر اس عہدے اور منصب کو سبھالنے کی صلاحیت قابلیت و استعداد ہو۔ اور نبئ کریم نے نااہل کو ذمہ دار بنائے جانیکو امانت کے ضائع کئے جانیسے تعبیر فرمایا ہے اور امانت کے ضائع کئے جانیکو قیامت کی نشانئ بتلائی ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف بیان فرمائی ہے جو زمین میں بڑائی اور فساد نہیں چاہتے اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
یہ آخرت کا گھر ہم ان یی لوگوں کے لئے کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد کرنا اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے ( القصص)
عہدے اور منصب کا طلبگار دنیا میں بڑائی کو پسند کرتا ہے اور بڑائی پسندوں کا رویہ ہی زمین میں فساد کا باعث بنتا ہے عہدہ اور منصب کو جاہنے والوں کا انجام برا ہوتا ہے نبئ کریم نے عہدہ اور منصب کی چاہت اور حرص رکھنے والے کو کوئی عہدہ یا منصب دینے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ایسے لوگ عموما اپنے ذاتی مفادات کے لئے ان عہدوں کو حاصل کرتے ہیں جس سے عام لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ حکومت کا مقصد تو عام لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہوتا یے نہ کہ بعض خاص لوگوں کو یا صاحب منصب حضرات کو فائدہ اور نفع پہنچانا۔حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ھیکہ میں اور میرے دو چچازاد بھائی نبئ کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انمیں سے ایک نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول جن پر اللہ تعالی نے آپکو حکمران بنایا ہے ان میں سے بعض کی گورنری ہمیں عنایت فرمائیے دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کہی تو نبئ کریم نے فرمایا اللہ کی قسم ہم عہدوں پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو خود اسکا سوال کرے اور نہ کسی ایسے شخص کو جو اسکی خواہش کرے ( ریاض الصالحین ) حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ھیکہ مجھ اللہ تعالی کے رسول نے فرمایا اے عبدالرحمن بن عوف تو خود کسی منصب کا سوال نہ کرنا اسلئے کہ یہ منصب اگر تجھے بغیر سوال کئے مل گیا تو اسپر تیری مدد ہوگی اور اگر یہ تجھے سوال کرنیسے ملیگا تو تو اسکے سپرد کر دیا جائیگا ۔ مارت یعنی خلافت یا حکومت کے کسی عہدہ یا منصب کو حاصل کرنیکی کوشش کرنا یہ ناپسندیدہ ہے اسلئے عہدہ یا منصب یہ بڑی ذمہ داری ہے جسکو کما حقہ پورا کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے البتہ جسے بغیر مانگے یہ عہدہ اور منصب مل جائے وہ اسے قبول کرے کیونک بن مانگے یہ جسکو ملیگا اسکی اللہ تعالی کی طرفسے مدد بھی ہوگی اور اسےبھلائی اور درستی کی توفیق بھی ہوگی لیکن جو کوئی کسی عہدہ کو اپنی چاہت اور خواہش سے حاصل کرتا ہے وہ اللہ تعالی کی مدد اور توفیق سے محروم ہوجا تا ہے ۔
آج ذرا حالات کا جائزہ لیں کہ جو حضرات جائز اور ناجائز ہتکھنڈے استعمال کرکے اقتدار منصب اور عہدہ پر قابض ہوجاتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اسلئے کہ وہ اللہ تعالی کی مدد اور توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں
حضرت ابو ذر فرماتے ھیکہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا آپ مجھے کسی جگہ کا عامل ( گورنر) نہیں بنادیتے آپ نے میرے کندھے پر مارا اور فرمایا اے ابو ذر تو کمزور ہے اور یہ یعنی منصب ایک امانت ہے یہ قیامت والے دن رسوائی اور شرمندگی ہوگا سوائے اس شخص جو اسے حق کیساتھ حاصل کرے اور ان ذمہ داریوں کو پورا کرے جو اسکی بابت انپر عائد ہوتی ہیں ( ریاض الصالحین)
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ھیکہ منصب و عہدہ کے مستحق وہ حضرات ہیں جنکے اندر اس عہدہ کی صلاحیت و قابلیت ہو اور اس عہدہ کی ذمہ داریوں کو ہورا کرنیکی استعداد اور طاقت ہو
حضرت ابو ھریرہ روایت بیان فرماتے ھیکہ رسول اللہ نے فرمایا تم یقینا عہدہ اور منصب کی حرص کروگے یہ قیامت والے دن ندامت ہوگی ( ریاض الصالحین )
لیکن آج حال یہ ھیکہ عہدہ اور منصب کو اعزاز سمجھا جاریا یے اور ہر کوئی اپنے لئے یا اہنے متعلقین دوست و احباب کے لئے عہدہ اور منصب حاصل کرنیکی کوشش کرریا ہے چاہے اسکے اندر اس عہدہ اور منصب کو سبھالنے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو اور پھر چاہے وہ سیاسی و سماجی ادارے ہوں یا بسا اوقات مذہبی ادارے ہوں اور اس وجہ سے یہ بھی تباہ و برباد ہورہے ہیں اور قوم و ملت اور ملک کا نقصان بھی ہورہا یے لیکن اسکی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے ہرایک کو اپنا اور اپنے متعلقین کا مفاد عزیز اور پسند ہے صرف زبان سے ملک اور قوم و ملت کے بھلائی اور خیر خواہی کے کھوکھلے دعوے اور نعرے ہوتے ییں
اسلئے سیاسی سماجی اور مذہبی اداروں کے عہدوں اور مناصب پر ایسے افراد مقرر کرنے چاہیئے اور ایسے افراد کو ذمہ دار بنانا چاہیئے جنکے اندر اس عہدہ اور منصب کو سبھالنے کے صلاحیت و قابلیت بھی ہو اور وہ امانتداری اور دیانتداری کیساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ہورا بھی کرسکتا ہو
ورنہ ان اداروں کو تباہی و بربادی سے کوئی بچا نہیں سکتا
اللہ تعالی ان اداروں کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment