رزق اور عمر میں برکت ۔از قلم : مولوی شبیر عبد الکریم تانبے ۔
رزق اور عمر میں برکت ۔
از قلم : مولوی شبیر عبد الکریم تانبے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان اپنی رزق و روزی اور عمر میں برکت و بڑھوتری کے لئے بڑا فکرمند ہوتا ہے اور اسکے لئے ہمیشہ تگ و دو کرتے رہتا ہے حالانکہ یہ ساری باتیں انسان کے دنیا میں آنیسے پہلے مقدر ہوچکی ہیں جسے تقدیر کہا جاتا ہے
لیکن بعض اعمال اور بعض نیکیاں ایسی ہیں جو رزق اور عمر میں برکت و زیادتی کا سبب بنتی ہیں جیساکہ احادیث مبارکہ میں اسکو واضح فرمایا گیا ہے
لیکن چونکہ ہم نے دنیاوی اسباب اختیار کرنیکی وجہ سے حالات کو بدلتے ہوئے دیکھا یے اور اسکا مشاھدہ کیا ہے اسلئے اسباب پر تو ہمیں پورا یقین ہے لیکن چونکہ اعمال کے ذریعے زندگی کے حالات میں تبدیلیاں ہوتی ہوئی ہم نے دیکھی نہیں ہے یا انکا مشاہدہ نہیں کیا ہے اسلئے اسپر ہمیں یقین نہیں آتا
حالانکہ علماء کرام فرماتے ھیکہ ایمان بالغیب جسکا قرآن مجید میں تذکرہ ہے وہ یہ ھیکہ نبئ کریم جو ہدایات اور تعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب یقینی طورہر دل سے مان لینا
اور لفظ غیب سے مراد وہ تمام خبریں ہیں جنکی خبر نبئ کریم نے دی ہے اور جنکا علم عقل اور حواسہ خمسہ سے نہیں ہوتا اسلئے کہ اسکا تعلق وحی الہی سے ہے اسلئے ایک کامل مومن و مسلمان ہونے کے لئے ان تمام چیزوں پر دل سے یقین کرنا ضروری ہے
اللہ تعالی ہمیں ایمان کامل نصیب فرمائے
حضرت انس فرماتے ھیکہ نبئ کریم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو کو یہ بات پسند ھیکہ اسکی روزی میں وسعت اور عمر میں تاخیر کیا جائے تو اسے چاہیئے کہ صلہ رحمی کرے
رشتہ داروں کیساتھ اچھاسلوک و برتاو کرنے اور انکی خبر گیری کرنے اور انکے حقوق ادا کرنیکی وجہ سے آخرت میں اجر و ثواب کیساتھ دنیاوی زندگی میں رزق اور عمر میں برکت و زیادتی نصیب ہوتی ہے یا اسکی وجہ سے نیک و صالح اولاد نصیب ہوتی ہے یا صلہ رحمی کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی نیک نامی باقی رہتی ہے
پہلے بزرگ اور آباء واجداد اپنے رشتہ داروں کیساتھ چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہوں یا دور کے ہوں صلہ رحمی کا اہتمام کرتے انکے ساتھ اہنی اولاد کیطرح برتاو و سلوک کرتے جانی و مالی ہر اعتبارسے سے انکا تعاون کرتے بلکہ اہنی زمیں و جائیداد میں بھی انکو شریک کرتے گھر ایک آدمی کماتا لیکن سارے لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا جسکی وجہ سے رزق میں بھی برکت تھی اور عمر میں بھی برکت وزیادتی کہ لمبی عمر پاتے تھے اور صحت و تندرست بھی ہوتے تھے لیکن اسکے بارے میں یہ کہا جاتا ہیکہ چونکہ پہلے زمانے میں چونکہ غذائیں خالص تھیں تو یہ بھی ایک ظاہری سبب ہوسکتا ہے لیکن اصل وجہ وہی ہے جو نبئ کریم نے ارشاد فرمائی ہے یعنی صلہ رحمی
جو رشتہ دار اچھا سلوک و برتاو کرے اسی کیساتھ اچھا سلوک و برتاو کرنا یہ صلہ رحمی نہیں یہ تو برابری و سرابری اور احسان کے بدلے احسان کرنا ہوا لیکن اصل صلہ رحمی تو یہ ھیکہ جو رشتہ دار قطع تعلق کرے اسکے ساتھ تعلق قائم کرنا اور جو رشتہ دار بدسلوکی اور بداخلاقی سے ہیش آجائے اسکے ساتھ صبرو تحمل اور درگزر کا معاملہ کرنا یہ اصل صلہ رحمی ہے جسکا اسلام تقاضا کرتا ہے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے مگر جسکے لئے اللہ تعالی آسان فرمادے
حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ھیکہ نبئ کریم نے ارشاد فرمایا وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو احسان کے بدلے احسان کرتا ہے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ( ریاض الصالحیں )
اسطرح صدقہ و خیرات کرنے اور اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرنیکی وجہ سے مال و دولت میں برکت و بڑھوتری ہوتی ہے
حضرت ابو ھریرہ سے روایت ھیکہ نبئ کریم نے ارشاد فرمایا ہر دن جسمیں بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں انمیں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ روک کر رکھنے والے کے حصے میں ہلاکت کر ( ریاض الصالحین)
آدمی کو چاہیئے کہ اپنی حیثیت اور وسعت کے اعتبارسے اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرے غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھے اسلئے کہ اسکی وجہ سے فرشتے کی دعا ملیگی اسطرح بخیلی و کنجوسی کرنے اور صرف مال و دولت جمع کرنیسے بچے اسلئے کہ اس سے مال بڑھتا نہیں ہے اور فرشتہ اسکے لئے ہلاکت کی دعا کرتا ہے اور فرشتوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں
حدیث مبارکہ میں ھیکہ نبئ کریم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے فرمایا اے آدم کے بیٹے تو خرچ کر تجھ پر بھی خرچ کیا جائیگا ( ریاض الصالحین)
یعنی اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرنیکی وجہ سے اللہ تعالی اسے فراخی اور بہترین بدلہ عطا فرماتے ہیں
اعمال کے ذریعے ہماری آخرت کی زندگی کیساتھ ہماری دنیاوی زندگی بھی کامیاب ہوگی اور اسکے مسائل اور مشکلات بھی حل ہونگی اسکا ہمیں دل سے یقین کرنا چاہیئے
اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہمیں صلہ رحمی کرنے اور اپنے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرنیکی توفیق عطا فرمائے۔
Comments
Post a Comment