سفارش کی حقیقت و فضیلت.از قلم : مولوی شبیر عبد الکریم تانبے ۔
سفارش کی حقیقت و فضیلت.
از قلم : مولوی شبیر عبد الکریم تانبے ۔
اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ کے سبب کسی میں کم اور کسی میں زیادہ صلاحتیں استعدادیں اور قابلیتیں پیدا فرمائی ہیں اور ایکدوسرے کے تعاون اور مدد پر ابھارا ہے تاکہ اللہ تعالی انھیں اجر و ثواب سے بھی نوازے اور انھیں اللہ تعالی کی مدد بھی حاصل ہو جیساکہ حدیث مبارکہ میں وارد ھیکہ اللہ تعالی اسوقت تک اپنے بندہ کی امداد میں لگے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی امداد میں لگا رہے
تو کسی کی مدد اور کے لئے تگ و دو اور محنت و کوشش کرنا یہ اجر و ثواب کے حاصل ہونیکے ساتھ خود کے لئے اللہ تعالی کے مدد کے اترنے کا بھی ذریعہ ہے اسلئے ہر ایک کو اپنی وسعت و قدرت کے اعتبارسے دوسروں کی مدد و تعاون اور خدمت کی کوشش کرنی چاہیئے
بسااوقات انسان اپنی کمزوری اور ناواقفیت کی وجہ سے اپنا جائز حق وصول نہیں کرہاتا اسلئے اگر کوئی شخص اسکا جائز حق اسکو دلانے کے لئے کوشش اور حکام سے اسکی سفارش کرتا ہے تو یہ بھی بڑے اجر و ثواب کی بات ہے جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے
جو شخص اچھی سفارش کرے اسکو اسکی وجہ سے حصہ ملیگا ( سورہ النساء)
حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ھیکہ جب نبئ کریم کے پاس کوئی ضرورتمند آتا تو آپ اپنے شرکائے مجلس سے فرماتے سفارش کرو تمہیں اجر دیا جائیگا اور اللہ تعالی اپنے نبئ کی زبان پر جو پسند فرماتا ہے فیصلہ فرمادیتا ہے
سفارش سے مراد جو شخص اپنا جائز حق اور جائز مطالبہ اپنی کمزوری یا دیگر وجوہات کی بناء پر بڑوں تک یا ذمہ داروں تک پہنچا نہیں سکتا تو اسکے جائز حق کو اسکو دلانے کیخاطر بڑوں سے اور حکمرانوں سے اسکی سفارش کرنا تو جو شخص سفارش کریگا اسکو اجر و ثواب ملیگا
امام مجاھد فرماتے ھیکہ سفارش کرنے والے کو سفارش کا اجر و ثواب ملیگا اگرچہ اسکی سفارش قبول نہ کی گئی ہو اسلئے آدمی کو چاہیئے کہ سفارش کرکے فارغ ہوجائے اپنی سفارش کو قبول کروانے کے لئے اسپر اہنے تعلقات اور اپنے منصب کے ذریعے دباو ڈالنا جائز نہیں ہے
حضرت ابن عباس سے حضرت بریرہ اور انکے شوہر کے قصے میں منقول ھیکہ انسے نبئ پاک نے ارشاد فرمایا اگر تو اس سے رجوع کرے انھوں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول کیا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں آپ نے فرمایا نہیں میں تو صرف سفارش کرتا ہوں اسنے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ( ریاض الصالحین )
نبئ کریم نے حضرت بریرہ کو اپنے شوہر کے نکاح میں باقی رہنے کے لئے سفارش فرمائی تھی لیکن چونکہ یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا صرف سفارش اور مشورہ تھا اسلئے حضرت بریرہ نے اس مشورہ کو اپنے لئے مفید نہیں سمجھا اور اسے قبول کرنیسے معذرت کرلی لیکن نبئ کریم نے اسپر کسی ناگواری وغیرہ کا اظہار نہیں فرمایا اس سے اندازہ ہوتا ھیکہ اسلام شخصی حقوق اور شخصی آزادی کا کسقدر خیال اور احترام کرتا ہے
لیکن آج حال بالکل الٹا ہے اپنی سفارش کو قبول کروانے کے لئے اہنے تعلقات اور اہنے منصب کا اثر اور دباو ڈالکر اسکو قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اگر اسکی سفارش قبول نہ کیجائے تو ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ دشمنی اور انتقام پر اتر آتا ہے حالانکہ کسی شخص ایسا دباو ڈالنا کہ وہ اپنے ضمیر اور مرضی کے خلاف کرنے پر مجبور ہوجائے درست نہیں ہے بلکہ گناہ ہے
اسطرح سفارش پر کسی قسم کا کوئی معاوضہ لینا یہ رشوت ہے جو حرام ہے۔ اسلئے مفسرین فرماتے ھیکہ شفاعت حسنہ جسکا مقصد کسی مسلمان کے حق کو پورا کرنا ہو یا اسکو کوئی جائز نفع پہنچانا ہو یا اسکو نقصان اور مضرت سے بچانا ہو اور یہ سفارش کا کام کسی دنیاوی جوڑ توڑ کے لئے نہ ہو بلکہ محض اللہ تعالی کے لئے کمزور کی مدد اور تعاون کرنا ہو اور اس سفارش پر کوئی جانی یا مالی رشوت نہ لیجائے اور یہ سفارش کسی ناجائز کام کے لئے بھی نہ ہو یہ ہے سفارش کی اصل حقیقت بعض مفسرین حضرات نے لکھا ھیکہ کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لئے اللہ تعالی سے دعاء مانگنا یہ بھی شفاعت حسنہ میں داخل ہے اور دعاء کرنے والے کو بھی اجر و ثواب ملتا ہے
اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔
Comments
Post a Comment