احساسِ کمتری. مصنف : سراج الدین نلا مندو ۔(معلم : پیر کرم علی شاہ اردو پرائمری سکول نمبر ۱۰, پنویل مہا نگر پاليكا ، رائے گڑھ۔)




احساسِ کمتری.
 مصنف : سراج الدین نلا مندو ۔
(معلم : پیر کرم علی شاہ اردو پرائمری سکول نمبر ۱۰, پنویل مہا نگر پاليكا ، رائے گڑھ۔)

السلام علیکم قارئین۔
آج کے جدید دور میں میں انسانوں کو روٹی کپڑا اور مکان آسانی سے مل جاتا ہے، مگر نوکری نہیں ملتی۔ ایسا کیوں؟ 
جہاں تک میں سمجھتا ہوں، آج کے دور کے انسان ایسی نوکری کر رہے ہیں جن میں اُنہیں بلکل بھی دلچسپی نہیں ہے، بس گھر کی ذمےداریاں اور بچوں کی بہتر تربیت ہو سکتے اسلئے نوکری کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے وہ خود احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں، اور یہ درد و تکلیف اٹھانے کے بعد اچانک سے دل کا دورہ پڑنے اور سنگین بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نوکری نہ ہونے کی وجہ سے آج کے نوجوانوں میں کام کرنے کی قابلیت تو ہے لیکن کام کے مواقع فراہم نہیں ہو رہے، اور کام نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی شادیاں بھی نہیں ہو پارہی ہیں۔ جسکی وجہ سے غیر ضروری معاملات سماج میں سامنے آیا رہے ہیں، جسکی روک تھام کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے، نوکری۔ اگر نوکری نہیں تو مستقبل نہیں، نوکری نہیں تو شادی ہونے میں بھی بہت مشکلات پیش آتی ہیں، لڑکی ہو تو کہی نہ کہیں رشتا ہو بھی جائے، لیکن مسئلہ تو لڑکوں کے ساتھ ہوتا ہے، اور اگر مستقبل نہیں تو نسلیں برباد ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ 
پچھلے پانچ سالوں میں پورے بھارت دیش میں بہت بڑی تعداد نے خودکشی کر لی جس میں ایسے لوگ زیادہ تھے جنہیں نوکریاں نہیں ملیں یہ پھر گھر کی ذمےداریاں سے تنگ آگر اپنی جان گنوا دی۔ 
آج کے دور میں انسانوں کو ایسی نوکری کرنی چاہیے یہ پھر ایسا کام کرنا چاہیے جو انکا پسندیدہ بھی ہو اور اس کام سے آنے والی آمدنی سے گھر بھی چل سکے اور بچوں کی پڑھائی بھی مکمل ہوجائے، ایسا کرنے سے وہ خوش رہیں گے اور دوسروں کو خوش رکھ پائیں گے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کی جو کام ہمیں پسند نہیں اور وہ ہی کام کرنے کو کہا جائے تو پہلے تو ہم بہت سوچتے ہیں کی اس کام کو کرنا چاہیے یہ نہیں، اس کے بعد سوچتے ہیں کی مجبوری کے چلتے کام کرنا ضروری ہے، ورنہ گھر پے بیوی بچھے بھوک سے مر جائیں گے یہ بیمار ہو جائینگے، اور بیماری کے علاج کے لیے بھی تو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
چلو کچھ دیر کے لیے فرض کرتے ہیں کی ہمیں ڈرائنگ نکالنا پسند ہے تو اس حساب سے ہمیں آرٹسٹ بننا چاہیے جو بہتر سے بہتر تصویریں بناتا ہے، اور اگر ہمیں یہ شوق ہے کی مجھے بھی بڑی بڑی عمارتیں بنانی چاہیے یہ ڈیزائن کرنی چاہیے تو ہمیں انجینئرنگ کرنی پڑےگی، اور اگر ہمیں دوسروں کا درد بانٹنے میں مزا آتا ہے تو ہمیں ڈاکٹر بن جانا چاہیے، اور ہمیں پڑھنے پڑھا نے کا شوق ہے تو ظاہر سی بات ہے کی ہمیں معلم بننا چاہیے۔ 
لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے، ہمیں جس کام میں دلچسپی ہے وہ کام کرنے کو مل جائے تو خوش قسمتی، اور اگر پسندیدہ کام کرنے کو نہ ملے تو مجبوری سمجھ لیجئے۔ جسکی وجہ سے لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہو رہے ہیں، خود خوشی اور ڈپریشن کا شکار ہونا، پاگل پن جیسی بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ یہ بہت ہی غور و فکر کرنے والا مسئلہ ہے، جیسی وقت رہتے حل نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں برباد ہو جائیگی اور پیسہ کمانے کے لیے غلط راستے اختیار کر لينگی، جس سے اُنہیں دشواریاں اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا 
ہے۔
اور آج مجھے یہ بعد بڑے ہیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، کی جتنا روپیہ پیسہ ہم اپنے بچوں کی پڑھائی کی بجائے اُنہیں پیسوں سے اپنے بچوں کو کوئی ہنر سیکھ دیتے تو آج ہمارے بچّے نوکری کی تلاش میں یہاں وہاں بھٹکتے نہیں اور آج کے جدید اور مہنگے دور میں دو وقت کی روٹی کماتے اور اپنا اور اپنے اہل خانہ کی ذمےداریاں اٹھاتے اور ایک خوشحال 
زندگی گزارتے۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔