سفید پوش۔{افسانہ} از۔۔۔۔خان شبنم فاروق

سفید پوش۔
{افسانہ} 
از۔۔۔۔خان شبنم فاروق 

(اس افسانہ میں ایسے غیرت مند اور خوددار لوگوں کی زندگی کے حالات پیش کئیے گئے ہیں جو مفلس ہونے کے باوجود ان کی غیرت اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاے ۔ معاشرے کے ایسے سفید پوش انسان ہی حقیقت میں مستحقین ہوتے ہیں جن کی امداد کرنا صاحبِ نصاب پر واجب ہے)
__________________

جس دن وہ دوزخ کی آگ میں
 گرم کیا جائے گا
 پھر اس سے
 ان کی پیشانیاں اور پہلو
 اور پیٹھیں داغی جائیں گی
، یہ وہی ہے
 جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا
 سو اس کا مزہ چکھو !
 جو تم جمع کرتے تھے ۔۔
(القرآن)
اور جب تمہارے ہیرے جواہرات تمہاری ہی قبر میں ڈراونے اور شدید خوف میں مبتلا کرنے والے قوی ہیکل کیڑے مکوڑے بن کر آۓ تو اس سے خوف نہ کھانا کیوں کہ یہی وہ بیش بہا قیمتی جواہرات ہیں جو تمہیں صدقات و زکوٰۃ سے روکتے تھے۔اب اسے اسی چاہ اور خواہش کے ساتھ قبول کرو جیسا کہ دنیا میں کرتے تھے ۔۔ اور جب انہی قیمتی دھاتوں کو جلاکر تمہاری پیشانی داغی جاۓ تو واویلا نہ کرنا کیوں کہ یہی وہ دھاتیں ہیں جن کےلیے رشتے داروں سے قطع تعلق کرکے انہیں ان کی ضروریات سے محروم رکھا ۔۔۔۔ اب ابدی زندگی گزاروں ان‌ قیمتی سرماۓ کے ساتھ جو تمہارے لیے محض باعث ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔
__________
دن کا تہائی حصہ گزرنے کے آخری مرحلے میں ہے۔ سورج راہِ‌ منزل کی جانب گامزن اور پرندے اپنے اپنے مسکن کی جانب رواں دواں ہیں ۔‌ لکھنو کے عالم باغ کے چوراہے پر انسانی زندگی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آرہا ہے ۔ یہ مسلم علاقہ عام دنوں کی بانسبت ماہ رمضان میں زیادہ بارونق اور روشن نظر آیا کرتا ہے ۔مسجدوں سے آتی تلاوت کی دھیمی دھیمی آوازیں مسافروں کو ٹھرجانے پر مجبور کردیتی ہیں۔ اگر ہم عالم باغ سے کانپور کےلیے جانے والی شاہرہ کے دائیں جانب آئیں تو وہاں بڑی بڑی عمارتوں اور حویلی نما خوبصورت گھروں کے درمیان ایک منزلہ عمارت نظر آۓ گی ۔ جتنا چھوٹا گھر اتنے ہی کم نفوس اس گھر میں آباد ہیں ۔ زوہیب ، فالج زدہ باپ ، بیماریوں سے لڑ رہی ماں اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا زوہیب کا بھائی جسے گھر کی یاد صرف رات کے وقت ہی آتی ہے بقیہ دن اوارہ گردی میں صرف کرتا ہے۔ زندگی ہر ایک کےلیے یکساں نہیں ہوتی اگر کوئی محل میں آرائشی زندگی بسر کر رہا ہے تو وہیں کوئی جھوپڑی میں زندگی کو جھیل رہا ہے ۔ یہ تضاد اجل سے ابد تک قائم رہنے والا ہے ۔ یہ تضاد ہی معراج انسانیت کا معیار ہے ۔
ﷲ اکبر ۔۔۔ ﷲ اکبر ۔۔۔۔ مؤذن کی اٹھتی صدا پورے عالم باغ پر لمحہ بھر کےلیے سکوت طاری کرگئی جہاں صرف مؤذن کی صدا گونج رہی تھی ۔ 
امی بس کیجیے اذان ہورہی ہے دعا مکمل کریں اور روزہ افطار کریں ۔ 
زوہیب کی آواز نے ماں کے سکوت کو توڑا ۔۔
ماں نے دسترخوان کی جانب ہاتھ بڑھایا جہاں ایک طشتری میں چند کھجور اور پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ماں نے کھجور کھایا اور شکر ادا کرتے ہوۓ اپنے بیٹے کی جانب دیکھنے لگی جہاں درد کا ایک جہان آباد تھا جس کی تکلیف سواے ماں کے کوئی نہیں محسوس کرسکتا تھا ۔۔
باپ کا سایہ ہونے کے باوجود زوہیب کی جوانی جھلس کر رہے گئی تھی کم عمری میں ہی گھر کی ذمہ داریوں نے اسے ایکدم سنجیدہ اور وقت سے پہلے بڑا کردیا تھا ۔۔
"بیٹا دوا کے پیسوں سے کچھ کھانے کےلیے ہی لے آتے ۔۔ دوائیاں تو بعد میں بھی آجائیں گی "
نہیں امی ۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے آپ کی دوائیوں میں ناغہ بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔ اور پھر امی کھجور تو ہے ہی گھر پر کیا ضرورت ہے دوسری چیزوں کی ۔
یہ صبر اور شکر بھی ماں نے زوہیب میں ہی دیکھا تھا جو اتنی تنگی اور مشکلات کے باوجود کبھی افففففف نہیں کرتا تھا ۔ 
حالانکہ کتنی ہی مرتبہ گھر کے رشتے داروں نے پیسے دینے چاہیں لیکن ان کی خودداری اور غیرت اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ کسی سے مفت کے پیسے لے ۔ لہذا زوہیب میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے فوراً بعد دوپہر کو بطور شاپ کیپر کام کرتا اور رات کا کچھ حصہ بھی روزگاری میں ہی صرف کیا کرتا تھا ۔۔کبھی کبھی یوں لگتا تھا ساری آزمائشیں زوہیب کے گھر والوں کےلیے ہی ہیں اتنی تنگی میں یہ چھوٹے سے گھر کے نفوس شکر گزاری کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے کہ نوبت یہاں تک آگئی کہ گھر کا ایک حصہ فروخت کرنا پڑا۔۔ کبھی کبھی ﷲ رب‌العزت اپنی ہی دی ہوئی چیزوں کو جب واپس لیتا ھے تو انسان تڑپ جاتا ہے اور یہ ہی تڑپ زوہیب کی ماں کو پل پل کھا رہی تھی۔ وہ اپنے حسین بیٹے کی جوانی مشکلات اور آزمائشوں میں رُلتے دیکھ رہی تھی ۔‌ اور بےبس اتنی تھی کہ سواۓ دعا کے کچھ نہیں کرسکتی۔ انہوں نے اتنی مشکلات میں بھی زوہیب کو ہمیشہ باہمت اور مضبوط ارادوں والا پایا جو صبر کے ساتھ زندگی کی جدوجہد میں شامل تھا۔شاید ﷲ نے صبر اور شُکر غریبوں کی کٹیا کےلیے ہی بنایا ہے جہاں یہ دونوں عرصے دراز تک قیام کرتے ہیں۔
______________
اور برخور دار کیسے ہو ۔ روزے کیسے گزر رہے ہیں ۔۔ آج کل تو بہت مصروف ہونگے ۔۔ بھئی تراویح جو پڑھانی ہوتی ہے تمہیں ۔ فرقان بیگ گاؤ تکیہ لگاۓ نرم گداز بستر پر بڑے ٹھسے سے بیٹھے پان کھا رہے تھے ۔ جب زوہیب کو دروازے سے داخل ہوتے دیکھا تو اگل دان میں ایک لمبی پچکاری پھینک کر خیر خیریت دریافت کرنے لگے ۔۔
(فرقان بیگ زوہیب کے چچا تھے جن کا شمار امرا اور رئیسوں میں ہوا کرتا ہے)
زوہیب اندر داخل ہوکر احتراماً سلام کرتا ہے۔
السلام علیکم ورحمتہ ﷲ
ارے وعلیکم السلام وعلیکم السلام ۔ بھئی ہم نے جو پوچھا ہے وہ بتائیے برخور دار ۔۔
جی چچا سب خیریت سے ہے ۔ بس ابھی تراویح کی نماز ادا کرکے ہی سیدھا یہاں چلا آیا۔وہ امی کی طبیعت کچھ ناساز تھی تو امی کہہ رہی تھی چچی کو بلا لاؤں ۔ آج کل بہت بوجھل طبیعت ہورہی ہے امی کی ۔۔ اکیلے گھبرانے لگتی ہیں اس لیے ۔۔ 
تمہاری چچی فارغ تھوڑی بیٹھی ہوتی ہے تمہاری امی کی طرح ، ہزار کام ہیں اسے ۔۔۔ دیکھو ابھی بھی کہیں کسی کام میں مصروف ہونگی ۔
زوہیب اطراف میں نوکروں کی چھاونی دیکھ کر محض سوچ کر رہے گیا (اتنے سارے نوکروں کے ہوتے ہوۓ چچی کیا ہی کام کرتی ہونگی) 
اچھا چچا اس بار ابو کے حصے کی جو زمین ہے اس کے کچھ پیسے ہی دے دیجیے ۔۔ امی جان کی طبیعت کی ناسازی کے سبب پیسوں کی ضرورت ہے ۔۔
زوہیب کی زبان ہچکچاتے ہوۓ کتنے بار لڑکھڑای تھی
 حالانکہ اپنے ہی حصے کے پیسے مانگنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا چچا کے جواب کو زوہیب اچھے سے جانتا تھا اس لیے تھوک نگلتے ہوۓ ماں کی صورت حال دیکھتے ہوۓ بہت ہمت کرکے کہہ دیا ۔۔
(دادا کے انتقال کے بعد چچا نے پیسے اور طاقت کے زور پر ساری زمین پر قبضہ جمالیا تھا )
" لو کرلو گل " محلہ بسا نہیں کہ بھکاری پہلے آگئے ۔۔
زوہیب میاں تیرے باپ کے حصے کی زمین کے پیسے دیے ہوۓ زمانہ بیت چکا ہے جا پوچھ اپنے لاغر باپ سے ۔۔ اور ہاں یہ جو میرے بیٹے کی نئی کمپنی دیکھ کر تم پیسے مانگنے آۓ ہو نا وہ مفت کی نہیں کھڑی کی ہے خون پسینہ ایک کیا ہے پھر جاکر بلندی نصیب ہوئی ہے" ۔۔ زوہیب اچھے سے جانتا تھا خون پسینہ ان کا بہایا ہے یا ان منشیات کے عادی لوگوں کا جنھیں منشیات فروخت کرکے آج امیروں میں شامل ہوۓ ہیں۔ لیکن زوہیب کسی بحث و مباحثے کی بجاۓ مفاہمت سے کام لینے والا ایک سلجھا انسان تھا ، لہذا بات کو طول دینے کے بجاے چچی سے ملنے کی غرض سے کمرے میں جانے کی اجازت طلب کرنے لگا ۔
چچا اجازت ہو تو چچی سے ملاقات کرلوں ؟
ہاں ہاں جاؤ مل لو ۔۔۔ اس مسکین سے بھی اپنے دکھڑے سنا دینا ۔۔
زوہیب نظر انداز کرتے ہوۓ ، چچی کے بیڈ روم کی طرف بڑھ گیا ۔
چچی کمرے میں بیٹھی بھاری بھرکم نوٹوں کی گڈیاں لیے ہوۓ گننے میں ہلکان تھیں 
السلام علیکم ورحمتہ ﷲ چچی ۔۔ 
اجازت ہو تو اندر آؤں ۔۔
ارے زوہیب میرا بیٹا۔۔۔۔ وعلیکم السلام آؤ آؤ اپنے ہی گھر میں کوئی پوچھنے کی بات ہے آجاؤ ۔۔
(دادا کے انتقال سے قبل زوہیب اور فروہ کے نکاح کی بات طئے ہوچکی تھی ، لیکن زوہیب کے بابا پر فالج کا اٹیک ہونے کی وجہ فرقان بیگ اسے ٹال رکھے تھے )
اچھا کیا جو ابھی آگئے میرا ایک کام بھی کردو ۔۔۔
جی چچی بولیے ۔۔
بیٹا دیکھو زکوٰۃ نکال رہی ہوں ۔۔رمضان کا دوسرہ عشرہ شروع ہوچکا ہے ۔۔ سوچ رہی ہوں تمہارے چچا تو دینے سے رہے انہیں جب بھی زکوٰۃ کا کہتی ہوں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں بھئی دے دو کچھ رقم خود سے مجھے نہ کہا کرو ۔۔ اس لیے ہر سال کی طرح اس سال بھی کچھ پیسے نکال رہی ہوں ۔۔ اب صاحبِ نصاب ہوں یہ تو پتا ہے ۔ کاش اماں بابا نے ڈگریوں کی تعلیم کے ساتھ کچھ شرعی تعلیم بھی دلوائی ہوتی تو شرائط وغیرہ کا علم بھی ہوتا ۔ بہرحال  تم بتاؤ 10000 ہزار کافی ہونگے نا ۔۔
چچی زکوٰۃ کے پیسے اندازاً نہیں دئیے جاتے۔کُل مال کا چالیسواں حصہ دیا جاتا ہے۔
امی کیا آپ چاۓ پیے گی ۔۔ اپنی ہی زون میں آتی ہوئی فروہ زوہیب کو دیکھ کر ٹھر سی گئی ۔۔
یوں اچانک نصیب ہو گے آنکھوں کو، خوشی ، حیرت ، بے یقینی ، پتا نہیں کیسے کیسے جذبات ابھر کر مٹ رہے تھے ، پر آنکھیں ان کی تو تشنگی کو سکون ملا ہے۔عجیب ہے یہ آنکھیں بھی جی بھر کے محبوب کو دیکھ بھی نہیں سکتی۔۔۔ 
یوں لگتا ھے تمھیں دیکھے کتنی صدیاں بیت گئیں ، دل ہی دل میں خود سے کہتی امی کے پاس آکر بیٹھ گئی ۔
سب خیریت ہے زیب کافی دنوں بعد آۓ ہو ۔۔ شکوہ کناں آنکھیں زوہیب کی طرف جواب طلب تھی لیکن وہ چچی کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا ۔۔
چچی فروہ بھی آگئی ہے میں آپ کو بتاتا ہوں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے کچھ نہ سمجھ آے تو آپ فروہ سے پوچھ لیجیے گا ۔ 
میں تو چاۓ کے بغیر کچھ کام نہیں کرنے والی ۔۔ اور آپ دونوں بھی پہلے چاۓ پھر کام ۔۔
کہتی ہوئی باورچی خانہ کی جانب بڑھ گئی ۔۔
چچی مسکراتی ہیں ۔ بیٹا یہ بتاؤ گھر میں سب ٹھیک ہے ۔۔
چوں کہ چچی کا تعلق تعلیم یافتہ اور سلجھے گھرانے سے تھا لہذا چچا کے برعکس چچی کا رویہ ہمیشہ نرم اور اخلاق سے پرُ ہی ہوتا ۔ کبھی کبھی زوہیب کی امی کو بغیر کسی کے بتاۓ مالی امداد بھی کر آیا کرتی تھیں ۔۔
 سب بہتر ہے الحمدللہ وہ پاک رب جس حال میں رکھے قبول ہے ۔۔
بانو باجی کیسی ہیں زوہیب ۔ چچی امی کی طبیعت کچھ دنوں سے ناساز تھی آپ کو یاد کررہی تھی سوچا آج آپ کو بلا لاؤں خاص کر اسی لیے آج آیا ہوں ۔۔
(دونوں کے درمیان گفت و شنید ہوتی ہے )
یہ لیں گرما گرم چاۓ حاضر ہے۔ فروہ کے لہجے سے خوشی عیاں تھی ۔ یہ لڑکیاں بھی کتنی سادہ ہوتی ہیں جو پسند ہو اسے دیکھ کر ہی خوش ہوجاتی ہیں ۔۔ ( زوہیب فروہ کی جانب دیکھے بغیر ہی اس کی کیفیت سے باخبر تھا )
چاۓ کا دور ختم ہوا ۔۔۔
جی چچی تو اب ہم دیکھتے ہیں زکوٰۃ کے پیسے کتنے نکلتے ہیں ۔
چچی اگر ساڑھے سات تولہ سونا ہے یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہے ، یا تجارت کا مال (کاروباری مال) 
یا آپ کے بینک کے پیسوں کو ملاکر ساڑھے سات تولہ سونا خریدنے کے پیسے ہوجاتے ہیں یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدنے کے پیسے ہوجاتے ہیں تب آپ صاحبِ نصاب کہلائیں گی ۔ اور آپ پر زکوٰۃ واجب ہے ۔ زکوٰۃ دراصل ہمارے مال کو پاک کرنے اور سماج میں معاشی خلیج کو پُر کرنے کےلیے ادا کی جاتی ہے ۔ 
زوہیب اتنا تو تیری چچی کو بھی پتا ہے بیٹا۔۔۔ چچی اپنی تعلیم کا رعب دیکھاے بغیر نہ رہ سکی۔
تم یہ بتاؤ پیسے کتنے نکالنے ہیں ۔۔
" یہ کمبخت میتھس سے بی ایس سی کررہی ہے لیکن مجال ہے کبھی اس نے یہ ساری چیزیں مجھے بتائی ہو " چچی نے فروہ کو گھُرکا ۔۔
 چچی بی ایس سی سی میں یہ تعلیم نہیں دی جاتی اس کےلیے آپ فروہ کو دینی مدارس میں بھی داخلہ کروائیے تاکہ بنیادی مسائل سیکھ سکے  ۔۔
فروہ مسکین سی صورت بناے بیٹھی تھی گویا شرمندگی سے زمین میں گڑی جارہی ہو ۔۔۔
چچی اب آپ اس طرح سے سونا ، چاندی اور مال کی مقدار بتائیے پھر اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ بنتا ہے ۔۔
بیٹا سونا تو میں پہنتی نہیں لیکن فروہ کےلیے بناکر  15 تولہ رکھا ہے اور چاندی دیکھنا پڑے گا ۔۔ مال کے پیسے بھی نکالنے پڑے گے کُل کتنے ہیں ۔
بیٹا تم مجھے سونے کی زکوٰۃ نکال کر بتادو بقیہ میں نکال لوں گی ۔۔ اپنے وقت کی اچھی اسٹوڈنٹ رہی ہوں میں بھی ۔۔۔ چچی فرضی کالر جھاڑتی ہیں ۔۔
چچی میں سونے کی زکوٰۃ نکال کر بتاتا ہوں لیکن آپ تینوں (سونا ، چاندی ، مال) کو ملاکر چالیسواں حصہ نکالیے گا ۔۔ یہ صرف سمجھنے کےلیے ہے ۔۔
چچی مارکیٹ میں سونا فی تولہ کتنے کا ہے یہ ہمیں دیکھنا ہوگا تاکہ بازار میں جو قیمت چل رہی ہے اس کے اعتبار سے پیسے نکالے جائیں اور جب زکوٰۃ نکالیں جو رائج الوقت قیمت سے ہی نکالا جاۓ گا ۔۔ ابھی تو 52 ہزار ہے ایک تولہ کا ۔۔۔
یعنی 15 تولہ کا 780000 (سات لاکھ اسی ہزار کل پیسے ہیں ) 
اب اس میں سے چالیسواں حصہ ہمیں نکالنا ہے ..
فروہ بھی متوجہ ہوکر سننے لگی ۔
تو اب ہم 780000 کو 40 سے تقسیم کریں گے ۔ 
" 19500 آے گا " فروہ نے برجستہ کہا ‌
ہاں بالکل یہ ہی آے گا زوہیب نے سیل فون پر چیک کیا ۔
اووووو ۔۔۔ یہ تو بہت آسان ہے اب میں امی کو بتا دیا کروں گی ۔۔ کچھ پوچھنا رہا تو تم تو ہو ہی ہمارے پاس ۔۔۔ بلا لیا جاے گا آپ کو ۔۔
ہاں اس طرح تم تینوں سونا ، چاندی اور مال کے پیسوں کو جمع کرکے اس کا چالیسواں حصہ نکالوں گی ۔۔۔
"جو حکم آپ کا " فروہ کچھ خوشگوار موڈ میں تھی۔۔
" چچی اب میں چلتا ہوں " 
ہاں بیٹا تم چلو ۔۔ میں چچا کو کھانے سے فارغ کرکے آتی ہوں ۔۔ اور ہاں تمہارے پاس زکوٰۃ کے متعلق کوئی  حدیث کی کتاب ہو تو نکال رکھو مجھے اس کی کچھ مزید معلومات حاصل کرنا ہے ۔
جی چچی ۔
*****************
کچھ دنوں میں چند احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے‌ اور کئی سارے مسائل کا احاطہ کرنے کے بعد آج چچی فروہ کو لیے زوہیب کے گھر کےلیے روانہ ہوئیں۔
السلام علیکم بڑی امی کیسی ہیں آپ ۔۔ پتا ہے آپ کو کتنا یاد کرتی رہی ہوں میں ۔۔ فروہ زوہیب کے گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھا زوہیب کی امی کی جانب بڑھی ۔۔ 
جبکہ زوہیب کچھ لمحوں کےلیے ساکت ہوگیا ۔۔۔ وہ اس کے پسندیدہ رنگ کے گاؤن میں براؤن اسٹال باندھے خود سے بے نیاز بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ زوہیب کی آنکھیں اس کے گالوں پر پڑ رہے ڈمپل پر ٹھر سی گئیں ۔۔
زوہیب بیٹا یہاں اؤ۔۔۔
 چچی گاڑی سے اتر کر سامان نکالنے میں مصروف تھی ۔۔۔ 
ارے انجم آرا کیا ضرورت تھی اتنا سارا سامان لانے کی ۔۔ کچھ نہیں بانو بس کھالی ہاتھ مناسب نہیں لگتا ۔۔۔ اور پھر اب تم ہی میری بہن اور جیٹھانی ہو میرا فرض بنتا ہے کہ کچھ نہ کچھ لے آؤں ۔۔۔
فروہ کی فرمائش پر زوہیب اسے اپنے عید کے کپڑے(جو اگلے سال کے ہی نئے رکھے تھے) دِکھانے کمرے میں گیا تھا جبکہ انجمن آراء اور بانو اپنے کمرے میں بیٹھی باتیں کررہی تھی ۔ انجمن آراء عید کے سوٹ اور کھانے پینے کی کئی اشیا لائی تھیں جسے ایک جانب سلیقے سے رکھا جاچکا تھا ۔مزید
 چچی نے ایک پھولا ہوا لفافہ بانو کے ہاتھ میں رکھا ۔۔۔ باجی یہ کچھ رقم اسے لینے سے خدا کےلیے انکار نہ کرنا ۔۔۔ اس سے زیادہ کا حق بنتا ہے تمہیں دینے کا لیکن مجھ سے جو بن پڑا میں لے آئی ۔۔۔
جبکہ زوہیب کی امی کی آنکھوں میں آنسوں تھے ۔۔۔ 
تم مجھے شرمندہ کررہی ہو مجھ سے چھوٹی ہوکر ۔۔۔۔
بس باجی اپنوں کی مدد کرنے میں چھوٹا بڑا نہیں دیکھا جاتا ۔۔۔ چچی نے بانو کی بات کو کاٹ کر کہا ۔۔
تم اپنی صحت کا خیال رکھو باجی ۔۔ اور وقت پر دوا لو ان‌شاءﷲ جلد ٹھیک ہوجاؤ گی ۔۔ 
باجی اب میں چلتی ہوں ورنہ فرقان کو کھانے کےلیے دیر ہوگی تو غصہ کرنے لگتے ہیں ۔۔
******************
امی لیکن آپ نے بڑی امی کو زکوٰۃ کے پیسے دے دیے یہ تو مناسب نہیں ہے ۔۔ حالانکہ ان‌ کے پاس اپنا گھر ہے ۔۔
بیٹا کل جو زوہیب نے کتاب لاکر دی تھی اس کا میں نے بہت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ۔۔
مستحقین کی کچھ قسمیں ہیں جنھیں زکوٰۃ دیا جاتا ہے۔۔اور یہ مستحق ہمارے رشتے دار میں ہو تو سب سے پہلا حق ان کا ہے۔۔ بیٹا بڑے ابو کے گھر میں صرف زوہیب ہے جو نوکری کرتا ہے ۔۔ ان کے پاس بنیادی ضرورتوں کے علاوہ ان کے پاس کوئی زائد مال نہیں ہے ۔۔ بڑی امی کے زیورات تک بیماری میں فروخت ہوچکے ہیں۔ لہذا سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ مستحق ہمارے رشتے داروں میں تو موجود نہیں ہے اگر رشتے دار میں کوئی مستحق ہو تو سب سے پہلا حق زکوٰۃ دینا ان پر بنتا ہے ۔۔ 
لیکن امی ان کے پاس اپنا گھر ہے اور جو سائل ہوتے ہیں وہ زیادہ مستحق ہیں ان لوگوں سے ۔۔۔
نہیں میری گُڑیا ۔۔۔ دیکھو ہمیں مستحق میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا ان کے پاس ضروریات زندگی کے علاوہ اتنا نصاب ہے کہ وہ خود زکوٰۃ ادا کرسکے ۔۔ بیٹا بانو کے حالات ہمارے سامنے ہیں ۔۔ ان کے پاس نصاب تو دور کی بات روزانہ کی ضروریات ہی بہت مشکل سے پوری ہورہی ہے ۔۔ان کے پاس سواے گھر کے کچھ نہیں بچا ہے۔ بیٹا یہ سفید پوش لوگ ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود ان‌کی غیرت اجازت نہیں دیتی کے وہ اپنی ضروریات کسی کے سامنے پیش کرے ۔۔ اس لیے اگر ہم ایسے لوگوں سے واقف ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی خاموش صدا کو سنے اور ﷲ نے ہم پر جو حقوق بندوں کے رکھیں ہیں ہم اسے بھی ادا کریں ۔۔
اور ایسے سفید پوشوں کو ہم ہدیہ کہہ کر زکوٰۃ ادا کرے تاکہ انہیں برا نہ لگے ۔۔ بیٹا اسی طرح ہم مدارس اور کچھ اداروں میں پیسے بغیر تحقیق کئیے دے دیتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے وہاں دیکھے بچوں کا خاندانی پس منظر کیا ہے ، مدارس اور ادارے کے اراکین اس پیسے کو صحیح مصرف میں استعمال کر رہے یا نہیں۔۔آج کل کتنے ادارے ایسے ہیں جو بلاضرورت پیسے جمع کرکے اپنے بینک بیلینس بڑھا رہے ہیں ۔ لہذا ہمیں زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی سے قبل تھوڑی سی زحمت کرکے حقیقی مستحق تک پہنچنا ہے ۔۔
جی امی ۔۔
اور بیٹا اس عید کے بعد تمہاری اور زوہیب کی رخصتی بھی تو ہے ۔۔ لہذا ان پیسوں کی زوہیب کے گھر والوں کو بہت ضرورت ہے۔
فروہ جھینپ کر رہے گئی۔
میں ﷲ سے دعا گو ہوں کہ اب تک جس طرح میں نے لاعلمی میں زکوٰۃ ادا کی ہے اسے معاف کرے ۔۔ اور ہمیں صحیح ادائیگی کی توفیق دے ۔۔
انجمن ۔۔۔۔ اوووو کمبخت کہا مر گئی ۔۔‌ اتنے سارے پیسے الماری سے کہا گئے ۔۔۔ 
فرقان بیگ کی دھاڑتی آواز نے دونوں ماں بیٹی کو ہلاکر رکھ دیا ۔۔۔۔
امی ابو تو بہت غصہ میں ہیں ۔۔۔
بیٹا ان کا غصہ چند لمحوں کا ہے ۔۔ جو ختم ہوجاے گا ۔۔۔ لیکن اگر میں ان کے خوف سے زکوٰۃ کی صحیح ادائیگی نہ کرتی تو میں اپنے خدا کو ناراض کرسکتی تھی اور اس کی ناراضگی دنیا و آخرت دونوں میں سواۓ تباہی کے کچھ ‌نہیں ۔۔۔۔
تم اطمینان رکھو گڑیا ۔۔۔
میں سمجھا کر آتی ہوں ۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔