اُردوگھر شولاپور۔ اُمید کی نئی کرن۔۔ از۔۔۔۔ رضیہ سلطانہ الطاف پٹھان شولاپور۔
اُردوگھر شولاپور۔ اُمید کی نئی کرن
از۔۔۔۔ رضیہ سلطانہ الطاف پٹھان شولاپور۔
شولاپور میں تعمیرکردہ اُردو گھرکی یہ بہترین عمارت دس کروڑمیں بنی ہے۔ اس عمارت کی تعمیرکےلئے بہت جدوجہدکی گئی۔ ایک دن مُجھے جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ میرے اپنے شہرمیں تمام سہولیات سے لیس اُردو گھر کی ایک پختہ عمارت تعمیر ہوئی ہے تو میری خوشی و مسرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔ کیونکہ بچپن سے ہی میری تعلیم اُردو میڈیم سے ہوئی تھی اور آج کل اُردو اسکول اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی گھٹتی ہوئی تعداد مجھے بے چین کررہی تھی۔ ایسے میں اُردو گھر کی خوش خبری میرے لئے نئے حوصلہ اور نئی امیدیں وابستہ کرنے کے لئے کافی تھی۔ ویسے اگرہم اُردو گھرکو مختلف زاویوں سے سوچیں، دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں تو اردو گھرکا تصور صرف ایک عمارت تک محدود نا ہوکرسارے ہندوستان کو اپنا مسکن و مکان بتاسکتا ہے۔۔۔ ہمیں اخبارات اور نیوز چینل پر ایسے پروگرام دیکھنے میں ملتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ ماضی حکمرانوں کی اولادیں آج ہوٹلوں میں کام کرنے اور معمولی محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ جان کر بہت تعجب ہوتا ہےکہ کیا شاہی گھرانے کی بھی ایسی حالات ہوسکتی ہے؟ ایسی ہی صورت حال اُردو کی ہے۔ جب اُردو کا ذکر آئے تو میرے ذہن میں یہ بات اُبھر کر آتی ہے کہ اُردو سارے ملک کی زبان ہوکربھی، اس کا مسکن اکھنڈ بھارت دیش ہوکر بھی، آج اُردو بولنے ، پڑھنے ،لکھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے مایوس کن ماحول میں اُردوگھر اُمید کی کرن ثابت ہوا ہے۔
میرے ذہن میں بارہا یہ سوال گردش کررہا ہے کہ : قومی اور بین الاقوامی سطح پر بولی جانی والی اور ایک زمانے میں ملک کی سرکاری زبان رہی اُردو کی یہ ابترحالت کی کیا وجوہات ہیں؟ ہمیں اس بات کا بغور مطالعہ کرنا چاہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے کے آج کے انسان کو صرف اسی تعلیم کی ضرورت ہے جو اس کی ملازمت اور روزی روٹی کا انتظام کر سکے ۔
خیرہم تو اس عمارت کی تعمیر کی خوشی میں اظہارِخیال کررہے ہیں اور اس کے استعمالات کے کتنے مختلف طریقہ ہوسکتے ہیں اس پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کچھ پرانی یادوں نے گھیر لیا تو اکھنڈ بھارت کا ذکر کرنا پڑگیا۔ میری ناقص رائے میں اس عمارت کو استعمال کرنے کا ایسا پرانا طور طریقہ نا ہو جو صرف لکھنے اور کہنے میں اچھا لگے اور رفتہ رفتہ پھر یہ ویران ہو جائے اور آنے والی نسلیں اس کی مرمت کی ڈیمانڈ کرنے کو ہی ایک اہم فریضہ سمجھ بیٹھے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے *اصحابِ ذمہ دار میں اتحاد و اتفاق ہو۔ ان میں بات کی گہرائی کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔ اپنی رائے سے زیادہ اپنے ہم منصب ساتھوں کی رائے پر متفق ہوں۔ تب جاکر اس عمارت کی تعمیر کا مقصد پورا ہوگا*۔ اس عمارت کومسلسل دن رات چوبیس گھنٹے قوم و ملت کے لئے موجودہ دور کے چالینجز کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے بہتر نتائج بہت جلد ہم اور آپ اور پوری قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتی ہے۔ بشرطیکہ اس میں سیاسی جماعتوں کی دخل اندازی نہ ہو۔اُردوگھرصرف قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر ہی کام کرے اور اُردو کی بقاء ہی اس کا اہم مقصد ہو۔
Comments
Post a Comment